رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو یکے بعد دیگرے پانچ مدنی منیاں عطا فرمائیں۔ والدین نے ہر مدنی منی کی ولادت پر اسے رحمتِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّجانتے ہوئے شکر ادا کیا۔عموماً پہلی بچی پر تو خوشی کی جاتی ہے مگر یکے بعد دیگرےبچیاں ہوں تو خوشی نہیں کی جاتی البتہ مذہبی لوگ ’’شکوہ‘‘نہیں کرتے مگر ’’خواہش ‘‘نرینہ اولاد کی ہوتی ہے۔یہ ایسے راضی برضائے الہی تھے کہ مدنی مُنّا نہ ہونے پر نہ گلہ شکوہ کیا اور نہ پیشانی پر بل پڑے اور نہ ہی کبھی دل میں کوئی رنج و ملال ہوا ،تقدیر کا لکھا سمجھ کر اسے بخوشی قبول کیااوراپنے رب عَزَّ وَجَلَّ کی رضا پر راضی رہے مگر مدنی منے کی خواہش دل میں چٹکیاں لیتی رہی چنانچہ حضرت مولانا محمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان نے بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں اولادِ نرینہ کے لئے خصوصی دعا مانگی اور یہ نذر مانی کہ اگر لڑکا پیدا ہوا تو اسے راہِ خدامیں خدمتِ دین کے لئے وقف کردوں گا ،دعا قبولیت کے مرتبے پر فائز ہوئی اور بڑی چاہتوں اور اُمنگوں کے بعد گھر میں ایک مدنی منے کی آمد ہوئی۔ گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، ہر ایک کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا ،گھر میں غربت کے ڈیرے ہونے کے باوجودحضرت مولانا محمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان نے مدنی منے کی پرورش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی ۔انہیں نذر کے الفاظ یاد تھے کہ اسے راہِ خدامیں خدمتِ دین کےلئے وقف کرنا ہے بالآخر وہ وقت بھی آیا کہ راہ ِخدامیں وقف ہونے والےاسی مدنی منے نے شیخ التفسیر، مُفَسِّر شہیر، حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی اوجھانوی بدایونی گجراتیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے نام و