کو بلواىا اورفرمایا کہ آئندہ آپ کى تعلىم کا حرج نہیں ہونے دىں گے اس دور مىں خلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ حافظ مشتاق احمد صدیقی کانپوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی معقولات کےامام اور بلند پایہ استاذ سمجھے جاتے تھےچنانچہ حضرت صدر الافاضل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےان سے رابطہ فرمایاکہ آپ جامعہ نعیمیہ مراد آباد تشریف لے آئیں ، مگر علامہ مشتاق احمد کانپوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِینے ىہ شرط پىش کى کہ اس وقت مىرے پاس جو طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اُن سب کے قىام و طعام کا انتظام بھى آپ کے ذمہ ہوگا، جسے حضرت صدر الافاضل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے منظور فرمالىا اوریوں حضرت علامہ مشتاق احمد کانپورى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیجامعہ نعىمىہ مراد آبادتشریف لے آئے ۔ اپنے وقت کے منجھے ہوئے شہرت یافتہ استاد کے سامنے ذہین فطین علم کے شوقین طالب علم کا ایک نرالا دور شروع ہوا شاگرد کو ہر گھڑى ىہ احساس کہ استاد محترم محض مىرى تعلىم کى خاطر ىہاں بلائے گئے ہىں جبکہ استاد محترم کے پیش نظر یہ ہوتاکہ یہی وہ طالب علم ہے جس کے لئے ہمیں کانپور سے بلایا گیا ہے ۔
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا پانچواں اور آخری دورِ طالبِ علمی اس وقت شروع ہوا جب حضر ت علامہ مشتاق احمد کانپوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیجامعہ نعیمیہ مراد سے رخصت ہوتے وقت صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی کی اجازت سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے ساتھ میرٹھ لے گئے۔یوں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ا نیس برس کی عمر میں ۱۳۳۴ھ بمطابق