تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نافرمانی نہ کرے اور نہ آپ کی رائے سے اِخْتِلاف کرے۔ روانگی سے پہلے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچاؤں نے قافلے والوں کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر شفقت کرنے کا کہا۔بوقتِ روانگی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر بادل نے سایہ کیا ہوا تھا۔ (1)
ملکِ شام آمد اور عیسائی راہِب کا کلام
سیِّدُ الْاَنبیا، محبوبِ کِبْرِیَا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور میسرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سفر کرتے کرتے جب شام پہنچے تو یہاں انہوں نے بُصْریٰ کے بازار میں ایک درخت کے سائے تلے پڑاؤ کیا اس کے قریب ہی ایک عیسائی راہِب نَسْطُورا کی عِبادت گاہ واقع تھی، راہِب چونکہ میسرہ کو پہلے سے ہی جانتے تھے چنانچہ جب اُنہوں نے میسرہ کو دیکھا تو کہنے لگے: ”یَامَیْسَرَۃُ! مَنْ ھٰذَا الَّذِیْ نَـزَ لَ تَحْتَ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ؟ اے میسرہ! یہ اس درخت کے نیچے پڑاؤ کرنے والے شخص کون ہیں؟ “ میسرہ نے کہا: حَرَم والوں میں سے قریش کے ہی ایک فرد ہیں۔ راہِب نے کہا: اس درخت کے سائے میں نبی کے سِوا کوئی نہیں ٹھہرا۔ پھر پوچھا: ”فِیْ عَیْنَیْہِ حُمْرَۃٌ؟ اِن کی آنکھوں میں سرخی ہے؟ “ میسرہ نے کہا: ہاں، ہے اور وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔اس پر راہِب کہنے لگا: ”ھُوَ ھُوَ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ یَا لَیْتَ اَنِّیْ اُدْرِکُہٗ حِیْنَ یُؤْمَرُ بِالْخُرُوْجِ یہی ہیں، یہی آخری نبی ہیں، اے کاش! میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اُس وَقْت پا سکوں جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
________________________________
1 - سبل الھدی والرشاد، جماع ابواب بعض الامورالخ، الباب الثالث ، ۲ / ۲۱۵، بتقدم وتأخر.