باعِث آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مالِ تجارت کے ساتھ روانہ بھی کرنا چاہتی تھیں) لیکن پھر فرماتیں: پتا نہیں، حُضُور اس کا ارادہ رکھتے بھی ہیں کہ نہیں؟ (جب ابوطالِب اور حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درمیان ہونے والی بات چیت سے اُنہوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آمادگی کا اِظہار دیکھا تو) پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بُلا بھیجا اور عَرْض کیا: ”اِنَّهٗ قَدْ دَعَانِیْ اِلَی الْبَعْثَةِ اِلَيْكَ مَا بَلَغَنِیْ مِنْ حَدِيْثِكَ وَ عِظَمِ اَمَانَتِكَ وَكَرَمِ اَخْلَاقِكَ وَ اَنَا اُعْطِیْكَ ضِعْفَ مَا اُعْطِیْ رَجُلاً مِّنْ قَوْمِكَ آپ کو بُلا بھیجنے کی وجہ صرف وہ بات ہے جو مجھے آپ کی سچائی، امانت داری اور مَحاسِنِ اَخلاق کے بارے میں پہنچی ہے، اگر آپ میرے مال کو تجارت کے لئے لے جانے کی پیشکش قبول فرما لیں تو میں آپ کو اس کی نسبت دگنا مُعاوَضہ دوں گی جو آپ کی قوم کے دوسرے لوگوں کو دیتی ہوں۔“
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے قبول فرما لیا۔ جب اپنے چچا ابوطالِب سے اس کا ذِکْر کیا تو وہ کہنے لگے: ”اِنَّ ھٰذَا لَرِزْقٌ سَاقَہُ اللہُ اِلَیْکَ بے شک یہ رِزْق ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو عطا فرمایا ہے۔“ (1)
سفر پر روانگی
حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اپنے غلام میسرہ کو حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ کر دیا تھا اور یہ تاکید کی کہ کسی بات میں آپ صَلَّی اللہُ
________________________________
1 - المرجع السابق، ملتقطاً.