آپ کا شام جانا پسند نہیں کرتا اور آپ کی جان پر یہودیوں کی طرف سے اندیشہ کرتا ہوں لیکن اب اس کے سِوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ (1)
سیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جواب
جب ابوطالِب نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس جا کر خود کو تجارت کے لئے پیش کرنے کا کہا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کسی کے پاس سائل و طالِب بن کر جانے کو ناپسند جانا، رِوایت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جواباً اِرشاد فرمایا: ”فَلَعَلَّهَا اَنْ تُرْسِلَ اِلَیَّ فِیْ ذٰلِکَ شاید کہ وہ خود ہی مجھے اس سلسلے میں بُلا بھیجے۔“ اس پر ابوطالِب نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کسی اور کو منتخب کر لیں گی اور پھر آپ ایسی چیز کو طلب کریں گے جو منہ پھیر چکی ہو گی۔ (2)
حُضُور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تجارت کی پیشکش
حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور ابوطالب کے درمیان ہونے والی بات چیت پہنچ گئی۔ اس سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو رسولِ امین، صاحبِ قرآنِ مُبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی راست گوئی، عظیم امانتداری اور مَحاسِنِ اَخلاق کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا (اور اسی
________________________________
1 - دلائل النبوة للاصبهانى، الفصل الحادى عشر، ذكر خروج النبى صلى الله عليه وسلم الى الشام ثانيا الخ، ۱ / ۱۷۳.
2 - المرجع السابق.