رسولِ انام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سفرِ شام
ابو طالِب کی درخواست
شب وروز گزرتے رہے حتی کہ رسولِ خدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اعلانِ نبوت سے تقریباً 15 برس پہلے کا دَور آ جاتا ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس برس بھی شام کے سفر پر جانے کے لئے اہل عرب کا تجارتی قافلہ تیار ہے، تاجِر حضرات تیاریوں میں مصروف ہیں، اس سال حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا ابوطالب کی مالی حالت بہت کمزور ہے، غربت و مفلسی کے ہاتھوں مجبور ہو کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے بھتیجے حضرتِ سیِّدنا محمد مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو قافلے کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں، مروی ہے کہ انہوں نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہا: اے بھتیجے! میں ایسا آدمی ہوں جس کے پاس مال و دولت نہیں، ہمیں سنگین حالات درپیش ہیں، خشک سالی کے بُرے سال برقرار ہیں اور ہمارے پاس سازوسامان ہے نہ مالِ تجارت۔ یہ آپ کی قوم کا قافلہ شام کی طرف روانہ ہونے والا ہے اور خدیجہ بنتِ خُوَیْلِد بھی قوم کے بیشتر افراد کو قافلے میں بھیج رہی ہیں جو اس کے مال سے تجارت کریں گے اور نفع پائیں گے۔ اگر آپ ان کے پاس جائیں اور ان کا مال خود لے جانے کی پیشکش کریں تو مجھے یقین ہے کہ وہ آپ کا انتخاب کرنے میں دیر نہیں کریں گی مزید یہ کہ آپ کو دوسروں پر فضیلت دیں گی کیونکہ اُنہیں آپ کی طہارت و پاکیزگی کی خبریں پہنچی ہوئی ہیں۔ اگرچہ میں،