Brailvi Books

فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ
5 - 77
بھی رکھتی تھیں اور مُضَارَبَت§ (Investment) کے طور پر بھی مال دیا کرتی تھیں۔ (1) چنانچہ ہر تاجر کی طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بھی ایسے ذِی شُعُور، سمجھ دار، ہوشیار، باصلاحیت اور سلیقہ مند افراد کی ضرورت رہتی ہو گی جو امین اور دیانت دار بھی ہوں۔
پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شہرت
ادھر سرکارِ نامدار، مکے مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حُسْنِ اَخلاق،  راست بازی، ایمان داری  اور دیانت داری کا شہرہ ہر خاص وعام کی زبان پر تھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے غیر معمولی اَخلاقی ومُعَاشَرَتی اوصاف کی بِنا پر اخلاقی پستی کے اُس دَورِ جاہلیت میں ہی امین کہہ کر پکارے جانے لگے تھے۔ حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا  تک بھی اگرچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ان صفاتِ عالیہ کی شہرت پہنچ چکی تھی اور اس وجہ سے آپ، حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنا سامان دے کر تجارتی قافلے کے ساتھ روانہ بھی کرنا چاہتی تھیں لیکن یہ خیال کر کے کہ پتا نہیں حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اسے قبول فرمائیں گے بھی یا نہیں، اپنا ارادہ ترک کر دیتیں۔



________________________________
1 - یہ تجارت میں ایک قسم کی شرکت ہے کہ ایک جانب سے مال ہو اور ایک جانب سے کام، مال دینے والے کو رب المال اور کام کرنے والے کو مُضَارِب اور مالِک نے جو دیا اسے راس المال کہتے ہیں۔ [بہار شریعت، مضاربت کا بیان، حصہ۱۴، ۳ / ۱]
2 -   الطبقات الكبرىٰ، تسمية نساء المسلمات   الخ، ۴۰۹۶-ذكر خديجة بنت خويلد، ۸ / ۱۲
3 - جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔