طرف دُور دُور تک بےآب وگیاہ اور لق ودَق صحرا پھیلے ہوئے تھے یہی وجہ تھی کہ یہاں زراعت اور کھیتی باڑی کے امکانات بالکل ختم ہو کر رہ گئے تھے۔ قریش کے افراد سال میں دو۲ بار تجارتی سفر اختیار کرتے تھے، سردیوں میں یمن کی طرف اور گرمیوں میں شام کی طرف۔ پارہ 30، سورۂ قریش کی آیت نمبر ایک۱ اور دو۲ میں اللہ رَبُّ الْعِزّت کا فرمان ہے:
لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍۙ (۱) اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیْفِۚ (۲) (پ۳۰، قریش: ۱،۲)
ترجمهٔ کنزالایمان: اس لیے کہ قریش کو میل دِلایا۔ اُن کے جاڑے (سردی) اور گرمی دونوں کے کُوچ میں میل دِلایا (رغبت دِلائی) ۔
صَدْرُ الْاَفاضِل حضرتِ علّامہ مفتی سیِّد محمد نعیمُ الدِّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ان آیات کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں: یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بےشمار ہیں ان میں سے ایک نعمتِ ظاہِرہ یہ ہے کہ اُس نے قریش کو ہر سال میں دو۲ سفروں کی طرف رغبت دِلائی، اِن کی محبت اُن میں ڈالی، جاڑے (سردی) کے موسم میں یمن کا سفر اور گرمی کے موسم میں شام کا کہ قریش تجارت کے لئے ان موسموں میں یہ سفر کرتے تھےاور ہر جگہ کے لوگ انہیں اہل حرم کہتے تھے اور ان کی عزت و حرمت کرتے تھے، یہ امن کے ساتھ تجارتیں کرتے اور فائدے اُٹھاتے اور مکہ مکرمہ میں اِقامت کرنے کے لئے سرمایہ بہم پہنچاتے جہاں نہ کھیتی ہے نہ اور اسبابِ معاش۔ (1)
________________________________
1 - خزائن العرفان، پ ۳۰، سورۂ قریش، تحت الآیۃ ۲، ص ۱۱۲۱.