شریف اپنی بہاریں دکھانے لگا۔اُس نے مدرَسۃُ المدینہ(بالِغان)میں پڑھنابھی شُروع کردیا۔اُس کا تعلُّق ایک ماڈَرن اور امیر گھرانے سے تھا،گھر والوں کو اُس کی زندگی میں آنے والا مَدَنی انقِلاب سمجھ میں نہ آیا چُنانچِہ اس کی مُخالَفت شُروع ہوگئی،طرح طرح سے اُس کی دل آزاریاں کی جاتیں،سنّتوں پر چلنے کی راہ میں رُکاوٹیں کھڑی کی جاتیں اور دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا۔وہ کبھی کبھار بے بس ہوکر فریاد کرتا کہ مجھے اس مَدَنی ماحول سے دُور نہ کرو ورنہ پچھتاؤگے،مگر اُس کی کسی نے نہ سُنی۔مخالَفت کا یہ سلسلہ تقریبًاتین سال تک چلتا رہابِالآخِرتنگ آ کر اُس نے گھر والوں کے سامنے ہتھیارڈال دئیے اور داڑھی شریف مُنڈوا کر دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کو ’’ خیر آباد‘‘ کہہ دیا۔بڑے بھائی چُونکہ ڈاکٹر تھے اِس لئے اِسے بھی ڈاکٹر بننے کے لئے سردار آباد (پنجاب،پاکستان) کے ایک میڈیکل کالج میں داخِل کروادیا گیا۔جہاں وہ ہاسٹل (اِقامت گاہ)میں بُری صحبت کی نُحوستوں کا شکار ہوکر چَرَس پینے لگا اور سخت بیمار ہوگیا،گھر والے اُسے واپَس حیدر آباد لے آئے۔ والِدصاحِب نے علاج پر لاکھوں روپے خرچ کرڈالے مگر نہ صحتیاب ہوا نہ ہی سُدھرا بلکہ اب وہ ہیروئن کا نَشہ کرنے لگا۔کثرت سے نشہ کرنے کی وجہ سے وہ سُوکھ کر کانٹاہو گیا،دانتوں کی سفیدی غائِب ہوکر ان پر کالک کی تہ چڑھ گئی اور اب تادمِ تحریر اُس کی حالت پاگلوں کی سی ہوچکی ہے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ