کے سامنے اپنی اولاد کے بگڑنے کا رَونا روتے دکھائی دیتے ہیں،انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ اولاد کو اس حال تک پہنچانے میں خودان کا اپنا ہی ہاتھ ہے۔انہوں نے اپنے بچے کو ABC بولنا تو سکھایا مگر قراٰن پڑھنا نہ سکھایا،مغرِبی تہذیب کے طور طریقے تو سمجھائے مگررسولِ عَرَبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمکی سنتّیں نہ سکھائیں، جنرل نالج(معلوماتِ عامہ)کی اَہمِّیَّت پر تواس کے سامنے گھنٹوں لیکچر دیئے مگر فرض دینی عُلوم کے حُصُول کی رَغبت نہ دلائی،اس کے دل میں مال کی مَحَبَّت تو ڈالی مگر عشقِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی شَمع نہ جَلائی،اسے دُنیَوی ناکامیوں کا خوف تو دلایا مگرقَبروحَشر کے امتحان کی ناکامی کے بھیانک نتائج سے نہ ڈرایا،اسے’’ ہیلو!ہاؤ آر یُو!‘‘ کہنا تو سکھایا مگر سلام کرنے کاصحیح طریقہ نہ بتایا۔اس مقصد کے حصول کے لیے دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول ایک زبردست نعمت ہے۔قراٰن واحادیث اور اقوالِ بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِین کی روشنی میں اولاد کی تربیّت کاطریقہ جاننے کیلئے دعوتِ اسلامی کے اشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 188 صَفحات پر مشتمل کتاب،’’ تربیتِ اولاد ‘‘ کا ضَرور مُطالَعَہ کیجئے۔
سُونا جنگل رات اندھیری،چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رَکھوالی ہے