حضرتداتا گنج بخش علی ہجویریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے بچپن ہی سے محنت وجانفشانی کےساتھ علمِ دین حاصل کرنا شروع کر دیا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ حصولِ علم میں اتنےمشغول رہتے کہ نہ تو کھانے پینے کا خیال رہتا اور نہ ہی گر د و پیش کی خبر ۔چنانچہ حضرت خواجہ مستان شاہ کابلیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالغَنِی فرماتے ہیں:جن کا دل اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف مُتَوَجّہ ہو وہ دنیا کی نعمتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ۔ حضرت سیدنا علی بن عثمان ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سلطان محمود غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے قائم کردہ دینی مدرسہ میں تقریباً بارہ تیرہ سال کی عمر میں زیرِ تعلیم تھے۔حصولِ علم کے جَذبہ سے سَرشار تعلیم میں اتنا مَحَو (یعنی مشغول) ہوتےکہ صَبْح سے شام ہو جاتی مگر پانی تک پینے کی فرصت نہ ملتی ۔رِضوان نامی سفید ریش بزرگ اس مدرسہ کے مُدَرِّس تھے ۔ وہ اپنے اس خاموش طبع طالِبِ علم کو تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔(۱)
بولنے والا با رہا پچھتاتا ہے
شیخِ طریقتامیرِاہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہاپنےرسالے”خاموش شہزادہ“ میں تحریر فرماتے ہیں:یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خاموش رہنے میں نَدامت کا امکان بَہُت کم ہے جب کہ موقع بے موقع’’بول پڑنے‘‘کی عادت سے بارہا SORRY کہنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱ … اللہ کے خاص بندے ،ص۴۵۹