عَلَیْہ پر یوں گزارے کہ ہر وقت باوضو رہتے لیکن مسئلہ حل نہ ہوا،شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ اس بار معنوی جواب کے بجائے تجربے اور مُشاہدے کے ذریعے جواب حاصل کریں۔آخر ِکا ر اس مشکل کے حل کے لیے انہوں نے کُھردَرا لباس پہنا عصا اور وضو کابرتن تھامااور خُرَاساں کی جانب رَختِ سفر باندھ لیا۔راستے میں ایک گاؤں آیا تو عالم صاحب نے وہیں رات گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ گاؤں میں وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں دین دار نظر آنے والے دنیا داررہائش پذیر تھے اُنہیں وہاں ایسے کئی چہرے نظر آئے جو خوش حالی اور بے فکری سے دَمک رہے تھے۔ جیسے ہی ان لوگوں کی نظر اس اجنبی نوجوان پر پڑی تو ان میں سے ایک مُتکبرانہ چال چلتے ہوئےآگے بڑھا اور بولا: ’’تم کون ہو؟‘‘عالم صاحب نے سخت لب ولہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے نہایت نرمی سے جواب دیا:”مسافر ہوں ،رات گزارنےکے لیے ٹھہرنا چاہتا ہوں۔“وہ سب قہقہے لگا کر ہنس پڑے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے ۔’’ لگتا تو صوفی ہی ہے لیکن ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘اس نوجوان عالم نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا:” آپ نے بالکل درست کہا ، بے شک میں آپ لوگوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘اِنہوں نے عالم صاحب کو نچلی منزل پر ٹھہرایا اور خود بالا خانے میں چلے گئے ،کھانے کے وقت اُن کے آگے پھپھوندی لگی سوکھی روٹی رکھ دی اورخود بالا خانے میں مُرَغَّن غذائیں کھاتے ہوئے اُس نوجوان عالم پر آوازے کسنے لگے ۔کھانے سے فراغت کے بعد انہوں نے خربوزے کھائے