Brailvi Books

فیضانِ داتاعلی ہجویری
13 - 82
عَلَیْہ) پر نہیں گزرے یہی وجہ ہے کہ  آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نہایت توجہ  اور احترام  سے میرے اَحوال سن رہے ہیں۔ حضرت سیدنا  ابو  القاسم عبداللہ بن علی گرگانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بذریعۂ کشف میرے اس خیال پر مطلع ہوگئے اور فرمایا:”عزیز بیٹے! میرا یہ اِحْتِرام   صرف آپ کے ساتھ خاص نہیں  بلکہ یہ تو ہر ابتدائی طالب ِعلم سے ہے جو بھی اپنا حال بیان کرتا ہے میں اِسی اِحْتِرام سے اس کے اَحْوال سُنتا ہوں۔“ میں یہ سن کر خاموش ہوگیا ۔  (۱)
سوال کرنے کی فضیلت
اَمیرُالْمُؤمنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خداکَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے : ’’علم خزانہ ہے اور سُوال کرنا اس کی چابی ہے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تم پر رحم فرمائے سُوال کیا کرو کیونکہ اس (یعنی سوال کرنے کی صورت ) میں چار افراد کو ثواب دیا جاتا ہے۔سُوال کرنے والے کو ،جواب دینے والے کو، سننے والے اوران سے مُحَبَّت کرنے والے کو۔‘‘   (۲)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!علم حاصل کرنے کے لیے سُوال کرنا یقیناً باعثِ فضیلت ہےلیکن اس کے لیے سُوال کرنے کے آداب کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔اگر کبھی کوئی عالم صاحب کسی وجہ سے ناراضی کا اظہار بھی فرما دیں


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱ … کشف المحجوب،ص۱۷۶،سیدِ ہجویر،ص۹۲ 
۲ … الفردوس بماثور الخطاب،باب العین،۲/۸۰،حدیث:۴۰۱۱