Brailvi Books

فیضانِ داتاعلی ہجویری
11 - 82
بولنا اُس کی خاموشی سے بہتر ہے اور اگر اُس کا بولنا باطِل ہے تو اُس کی خاموشی اس کے بولنے سے بہتر ہے ۔حُضور داتا گنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ گفتگو کے حق یا باطِل ہونے کے متعلِّق سمجھانے کیلئے ایکحکایتنَقْل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت ِسیِّدُنا ابو بکر شبلی بغدادیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بغدادشریف کے ایک  مَحَلّے سے گزر تے ہوئے ایک شَخْص کو سنا وہ کہہ رہا تھا :  اَلسُّکُوْتُ خَیْرٌ مِّنَ الْکَلَامِ  یعنی خاموشی بولنے سے بہتر ہے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اسے فرمایا : ’’تیر ے بولنے سے تیرا خاموش رہنا اچّھا ہے اور میرا بولنا خاموش رہنے سے بہتر ہے۔‘‘(۱)
مدرسے کی زینت
 ایک روزسلطان محمود غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا گُزر اس مَدْرَسے کے پاس  سے ہواتو وہ اس عظیم درس گاہ میں تشریف لائے۔تما م طلبا ء زیارت کے لیے دوڑے لیکن  حضرت سیدنا داتا علی ہجویری  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مطالعے میں اس قدر منہمک تھے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو سلطان کی آمد کی خبر ہی  نہ ہوئی ۔ اُستاد صاحب نے پکارا:دیکھو علی! کون آیا ہے ؟اب کیا تھا ایک طرف  سلطان محمود غزنوی اور دوسری جانب ایک کمسن  طالب علم۔عجیب منظر تھا ، سلطان محمود غزنوی نے اس نوعمر طالب علم  پر ایک نظر ڈالی لیکن تجلیات کی تاب نہ لاتے ہوئےفوراً نظریں جھکا دیں اور مُدَرِّس سے کہا :  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم ! یہ بچہ خدا کی طرف راغب

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱ … کشف المحجوب،باب آدابھم فی الکلام والسکوت، ص۴۰۲ماخوذاً