پڑتااورمُعافی مانگنی پڑتی ہے یا پھر دل ہی دل میں پچھتاواہوتا ہے کہ میں یہاں نہ بولا ہوتا تو اچّھا تھا کیوں کہ میرے بولنے پرسامنے والے کی جِھجک اُڑ گئی، کھری کھری سننی پڑی، فُلاں ناراض ہوگیا،فُلاں کاچہرہ اُترگیا ، فُلاں کا دل دُکھ گیا ۔ اپنا وَقار بھی مَجروح ہوا وغیرہ وغیرہ۔حضرت سیِّدُنا محمد بن نَضْر حارِثی سے مروی ہے: زیادہ بولنے سے وَقار(دبدبہ) جاتارہتا ہے ۔ (۱)
بولنے اور چُپ رہنے کی دو قِسمیں
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:اَلْخَیْرُ خَیْرٌ مِّنَ السُّکُوْتِ وَالسُّکُوْتُ خَیْرٌ مِّنْ اِمْلَاءِ الشَّرِّ یعنی اچّھی بات کہنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموش رہنا بُری بات کہنے سے بہتر ہے۔(۲)حضرتِ سیِّدُنا علی بن عثمان ہجویری اَلْمَعروف داتا گنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ” کَشْفُ الْمَحْجُوب“میں فرماتے ہیں :کلام(یعنی بولنا) دو۲ طرح کا ہوتا ہے۔ ایک کلامِ حق اور دوسرا کلامِ باطل، اِسی طرح خاموشی بھی دو۲ طرح کی ہوتی ہے: (۱)بامقصد(مَثَلاً فکرِ آخِرت یا شَرْعی اَحکام پرغوروخَوض وغیرہ کیلئے) خاموشی(یعنی چُپ رہنا) (۲)غفلت بھری(یامَعاذَاللّٰہ گندے تصوّرات یا دنیا کے بے جاخَیالات سے بھر پور)خاموشی۔ ہر شَخْص کوسُکوت (یعنی خاموشی)کی حالت میں خوب اچّھی طرح غور کر لیناچاہئے کہ اگر اِس کا بولنا حق ہے تو
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱ … الموسوعۃ لِابن ابی الدنیا ،کتاب الصمت ،باب حفظ اللسان وفضل الصحت، ۷/۶۰،رقم:۵۲
۲ … شعب الایمان،الباب الرابع والثلاثون ، فصل فی فضل السکوت ۔۔الخ،۴/۲۵۶، حدیث:۴۹۹۳