پیارے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کیسے میٹھے انداز میں دو صحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان میں پیدا ہونے والی شکر رنجی کو دور فرمایا اور پھر صحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَاننے بھی کمال اطاعت کا کیسا ثبوت دیا کہ فوراً ایک دوسرے سے راضی ہو گئے۔ صاحب ِ جود و نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس مبارک فیصلے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب قاضی کی عدالت میں کوئی ایسا مقدمہ پیش ہو جس میں ایک فریق اعلیٰ اور دوسرا ادنیٰ مرتبے والا ہو تو اسے کسی کے مرتبے کا لحاظ رکھے بغیر حق بات ہی کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ،
عادل قاضی(Righteous Judge)
امیر المومنین حضرت سَیِّدُنا علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم جنگِ صفین کے لئے روانہ ہوئے تو راستے میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زرہ اونٹ سے گر گئی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد آپ واپس کوفہ تشریف لائے تو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے وہ زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی جو بازار میں اسے بیچ رہا تھا، آپ نے زرہ پہچان کر یہودی سے ارشاد فرمایا: ’’یہ زرہ تو میری ہے، میں نے کسی کو فروخت کی ہے نہ ہبہ کی ہے، پھر تیرے پاس کیسے پہنچی؟‘‘ یہودی نے عرض کی: ’’جناب! یہ زرہ میری ہے اور میرے قبضے میں ہے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’چلو! ہم قاضی کے پاس چلتے ہیں۔‘‘ چنانچہ، جب دونوں قاضی شریحرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے پاس پہنچے تو