میں تمہیں امان دیتا ہوں۔ وہ شخص مطمئن ہو کر لوٹ گیا اور صبح کو جب لشکر ِ اسلام نے اس بستی پر حملہ کیا تو دیکھا کہ سوائے ایک گھر کے باقی سارے خالی پڑے ہیں۔ حضرتِ سَیِّدُنا خالد بن ولیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس شخص کو بال بچوں سمیت قید کر لیا اور اس کے مال پر بھی قبضہ کر لیا، حضرت سَیِّدُنا عماررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ حضرت سَیِّدُنا خالد بن ولیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس آئے اور فرمایا کہ اسے چھوڑ دیں میں اسے امان دے چکا ہوں اور یہ مسلمان بھی ہو چکا ہے۔ حضرت سَیِّدُنا خالدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں لشکر کا امیر ہوں آپ کو امان دینے کا کیا حق تھا؟
اس پر ان دونوں ہستیوں میں شکر رنجی (معمولی سی رنجش) ہو گئی، اس حال میں یہ حضرات مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور یہ مقدمہ بارگاہِ نبوت میں پیش ہوا تو حضور نبی ٔرحمت، شفیعِ اُمتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرتِ عمار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی امان کو جائز رکھا اور اس شخص کو مع اس کے مال و اسباب اور اہل و عیال چھوڑ دیا، پھر حضرتِ سَیِّدُنا عماررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تاکید فرمائی کہ وہ آئندہ بغیر اجازت کسی کو امان نہ دیا کریں۔ حضرتِ خالد نے عرض کی: یا یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا آپ عمار جیسے غلام کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ میرا مقابلہ کرے؟ تو سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے)