رسالے ’’بادشاہوں کی ہڈیاں ـ‘‘ سے بیان فرمارہے تھے جسے حاضرین بڑے انہماک سے سن رہے تھے، مبلغ اسلامی بھائی کی پرتاثیر زبان سے جب سنا کہ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو، موت کے جھٹکوں اور نزع کی سختیوں کا علم ہونے کے باوجود افسوس!ہم اس دنیا میں اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں آہ!ہمارا ہر سانس موت کی طرف ایک قدم اور ہمارے شب وروز موت کی جانب ایک ایک میل ہیں ۔ چاہے کوئی زندگی کی کتنی ہی بہاریں لوٹنے میں کامیاب ہوجائے مگر اسے موت کی خزاں سے دو چار ہونا ہی پڑیگا۔ کوئی چاہے کتنا ہی عیش وعشرت کی زندگی گزارے مگر موت تمام تر لذّتوں کو ختم کرکے ہی رہے گی۔ کوئی خواہ کتنا ہی اہل وعیال اور دوست احباب کی رونقوں میں دلشاد ہولے مگر موت اسے جدائی کا غم دے کر ہی رہے گی، آہ!کتنے مغرور آبرودار موت کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوگئے، نہ جانے کتنے ظالم حکمرانوں کو موت نے ان کے بلند محلّات سے نکال کر قبر کی کال کوٹھری میں ڈال دیا۔ نہ جانے کتنے افسروں کو موت نے کوٹھیوں کی وسعتوں سے اُٹھاکر قبر کی تنگیوں میں پہنچادیا، کتنے ہی وزیروں کو بنگلوں کی چکاچوند روشنیوں سے قبر کی تاریکیوں میں منتقل کردیا، آہ!موت ہی کے سبب بہت سارے دولہے مچلتے ارمانوں کے ساتھ آراستہ وپیراستہ حجرہ عروسی میں داخل ہونے کے بجائے کیڑے مکوڑوں سے اُبھرتی تنگ وتاریک قبروں میں چلے گئے، نہ جانے کتنے ہی