کچھ اس طرح ہے کہ آج سے دو سال پہلے کی بات ہے کہ والد صاحب اپنی الیکٹرک کی دوکان پر بیٹھے کام میں مصروف تھے اچانک کرسی سے گرپڑے اور بے ہوش ہوگئے۔ والد صاحب کی اس حالت کو دیکھ کر دکان پر موجود لوگوں اور پڑوس کے دوکان داروں نے ہاتھوں ہاتھ انہیں ہسپتال پہنچایا اور گھر والوں کو اس ایمرجنسی سے آگاہ کیا۔ یہ خبر پاتے ہی ہم بھی ہسپتال پہنچے اور والد صاحب کی طبیعت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے لگے۔ بہرحال ڈاکٹر نے چیک اب کے بعد کچھ ضروری اَدویات دے کر انہیں چھٹی دے دی اور ہم والد صاحب کو لے کر گھر آگئے۔ پھر ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیوں کا مسلسل استعمال جاری رکھا مگر بجائے صحت کے وہ دن بدن کمزوری کی طرف بڑھنے لگے یہاں تک کہ نقاہت کے غلَبے کے سبب نوبت یہاں تک آپہنچی کہ وہ قوّتِ گویائی سے بھی محروم ہوگئے۔ ان کی اس حالت نے ہمیں فکر مند کردیا لہٰذا ہم انہیں مزید کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں موجود ایک آرتھو پیڈک سرجن کے پاس لے گئے اور اس کو دکھایا۔ تقریباً 12 گھنٹے والد صاحب کو رکھنے کے بعد اس نے یہ کہہ کر ہم سے معذرت کرلی کہ یہ میرا کیس نہیں ہے آپ کسی اور کو دکھائیے۔ اس سے ہماری پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا اور ہم پر خوف کے بادل منڈلانے لگے کہ نجانے والد صاحب کو کیا بیماری ہوگئی ہے۔ ہم نے ایک