بیماری میں مومن اور منافق کا فرق
رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بیماریوں کا ذِکرکرتے ہوئے فرمایا :مومِن جب بیمار ہو پھر اچھا ہو جائے، اس کی بیماری سابقہگناہوں سے کفّارہ ہو جاتی ہے اور آیِندہ کے لیے نصیحت اورمنافِق جب بیمار ہوا پھر اچھا ہوا، اس کی مثال اونٹ کی ہے کہ مالک نے اسے باندھا پھر کھول دیا تو نہ اسے یہ معلوم کہ کیوں باندھا، نہ یہ کہ کیوں کھولا! ( ابوداوٗد ج۳ص۲۴۵ حدیث ۳۰۸۹ ملخّصًا)
حدیثِ پاک کی شرح:مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّتحضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّاناِس حدیثِ پاک کے تحت ’’مرآت ‘‘جلد2 صَفْحَہ 424 پر فرماتے ہیں :کیونکہ مومن بیماری میں اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ یہ بیماری میرے کسی گناہ کی وجہ سے آئی اور شاید یہ آخِری بیماری ہو جس کے بعد موت ہی آئے، اِس لیے اسے شِفا کے ساتھ مغفِرت بھی نصیب ہوتی ہے۔ (جبکہ) منافقغافل یہی سمجھتا ہے کہ فلاں وجہ سے میں بیمار ہوا تھا (مَثَلاً فلاں چیز کھا لی تھی ، موسم کی تبدیلی کے سبب بیماری آئی ہے، آج کل اس بیماری کی ہوا چلی ہے وغیرہ) اور فُلاں دوا سے مجھے آرام ملا (وغیرہ وغیرہ) اَسباب میں ایسا پھنسا رہتا ہے کہ مُسَبِّبُ الْاَسباب(یعنی سبب پیدا کرنے والے رب عَزَّ وَجَلَّ) پر نظر ہی نہیں جاتی، نہ توبہ کرتا ہے نہ اپنے گناہوں میں غور۔ ( مراٰۃ المناجیح )
مَرَض اُسی نے دیاہے دوا وہی دے گا
کرم سے چاہے گا جب بھی شفا وہی دے گا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد