Brailvi Books

باطنی بیماریوں کی معلومات
34 - 341
ذِہانت یا خوش الحانی یا منصب وغیرہ کو اپنا کارنامہ سمجھ بیٹھنا اوریہ بھول جانا کہ سب ربُّ العزّت ہی کی عنایت ہے۔) 
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ ؕ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٪﴿۳۲﴾ (پ۲۷، النجم: ۳۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تو آپ اپنی جانوں کو ستھرا نہ بتاؤ وہ خوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں۔‘‘
حضرت سیِّدُنا اِبنِ جُرَیْج رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں : ’’اِس آیت مبارکہ کا معنیٰ یہ ہے کہ جب تم کوئی اچھا عمل کرو تو یہ نہ کہو کہ یہ کام میں نے کیا ہے۔‘‘ حضرت سیِّدُنا زَید بن اَسلم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں : ’’اپنے آپ کو نیکوکار قرار نہ دو یعنی یہ نہ کہو کہ میں نیک ہوں کیونکہ یہ تو عُجُب یعنی خود پسندی ہے۔‘‘(1)
صدر الافاضل حضرتِ علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی  اس آیت مبارکہ کے تحت ’’خزائن العرفان‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’یعنی تَفَاخُراً اپنی نیکیوں کی تعریف نہ کروکیونکہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کے حالات کا خود جاننے والا ہے وہ ان کی ابتداءِ ہستی سے آخرِ ایام کے جملہ احوال جانتا ہے ۔ مسئلہ : اس آیت میں ریا اور خود نمائی اور خود سرائی کی ممانعت فرمائی گئی لیکن اگر نعمتِ الٰہی کے اعتراف اور اطاعت و عبادتِ پر مسرّت اور اس کے ادائے شکر کے لئے نیکیوں کا ذکر کیا جائے تو جائز ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، ج۳، ص۴۵۴۔