Brailvi Books

باطنی بیماریوں کی معلومات
25 - 341
آیت مبارکہ:اللہ ربُّ العزت قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا ُبْطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالْمَنِّ وَالۡاَذٰیۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِؕ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیۡہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًاؕ لَا یَقْدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّمَّا کَسَبُوۡاؕ وَاللہُ لَا یَہۡدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیۡنَ﴿۲۶۴﴾ (پ۲، البقرۃ: ۲۶۴)
 ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو اپنے صدقے باطل نہ کر دو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہ لائے تو اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک چٹان کہ اس پر مٹی ہے اب اس پر زور کا پانی پڑا جس نے اسے نِرا پتھر کر چھوڑا اپنی کمائی سے کسی چیز پر قابو نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا ۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْہَادِی  اِس آیت مبارکہ کے تحت ’’خزائن العرفان‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’یعنی جس طرح منافق کو رضائے الٰہی مقصود نہیں ہوتی وہ اپنا مال ریا کاری کے لئے خرچ کرکے ضائع کردیتا ہے اس طرح تم اِحسان جَتَا کر اور اِیذاء دے کر اپنے صدقات کا اَجْرْ ضائع نہ کرو۔یہ (یعنی مذکورہ آیت مبارکہ) منافق ریا کار کے عمل کی مثال ہے کہ جس طرح پتھر پر مٹی نظر آتی ہے لیکن بارش سے وہ سب دور ہو جاتی