نیند یا بے ہوشی کی حالت میں میری داڑھی صاف کر ڈالی ہے۔‘‘ آہ ! چند ہی دِنوں کے بعد وہ دُکھیارادُنیا سے چل بَسا۔اللہ عَزَّوَجَلَّ مرحوم کی بے حساب مغفِرت فرمائے اور اُس کی داڑھی صاف کر ڈالنے والے کو توبہ کی سعادت بخشے۔‘‘آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
رُوح میں سَوز نہیں ،قَلب میں اِحساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں
افسوس صد کروڑ افسوس!کیسا نازُک دور آ پہنچا ہے کہ آج مُسلمان کہلانے والے اپنی اَولاد کو بِالجَبر (یعنی زبردستی) سُنَّتوں سے دُور رکھتے ہیں بلکہ سُنَّتوں پر عمل کرنے پر بسا اوقات طرح طرح کی سزائیں دیتے ہیں ،ایسے ایسے دِلخراش واقعات دیکھے گئے کہ بس خدا کی پناہ۔کئی نوجوان اِسلامی بھائیوں نے مَدَنی ماحول سے متاثر (مُتَ۔اَث۔ثِر) ہو کر داڑھی رکھ لی تو خاندان بھر میں گویا زلزلہ آگیا! اگر دھونس دھمکی اور مارپیٹ سے باز نہ آئے تو داڑھی رکھنے کے سبب بے چارے گھروں سے نِکال دیئے گئے،نیند کی حالت میں عاشقانِ رسول کی داڑھیوں پر قَینچیاں چلا دی گئیں۔دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کام کے آغاز سے پہلے کا واقِعہ ہے:ایک نوجوان سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُکے پاس آنے جانے،اُٹھنے بیٹھنے لگا،اُس پرماحَول کا اثر پڑنے لگا۔اُس نے گھر پر آتے جاتے ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘‘ کہنا شروع کر دیا، بعض اوقات دورانِ گفتگو اُس نے’’ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ‘‘کہ دیا۔ مُسلمان کہلانے والے وَالِدَین