یَظْلِمُوۡنَ النَّاسَ وَ یَبْغُوۡنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیۡرِ الْحَقِّؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۴۲﴾﴾(پ۲۵، الشوری: ۴۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’مواخذہ تو انہیں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘
حدیث مبارکہ، سرکش انسان کی ذلت وخواری :
سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو دنیا میں سرکشی کرے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اسے ذلیل کرےگا اور جو دنیامیں تواضع اختیار کرے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجے گا جو اس سے کہے گا: اے نیک بندے! اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے کہ میرے قرب میں آ جا کہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن پر آج نہ کوئی خوف ہے اور نہ کچھ غم۔‘‘(1)
جرأت علی اللہ یعنی سرکشی کے بارے میں تنبیہ:
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سرکشی و نافرمانی کرنا، اس کے مامُورَات (جن کاموں کا اس نے حکم دیا ان ) سے روگردانی کرنا اور اس کے مَنْہِیَّات (جن چیزوں سے اس سےمنع کیا ہے ان) کو بجا لانا حرام ناجائز اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
حکایت، سرکشی کا علاج ایک ولی اللہ کے ہاتھ:
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدہم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی خدمتِ سراپاعَظَمت میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…تاریخ ابن عساکر، ج۵۴، ص۴۳۱۔