شعراء میں سے تھے لہٰذا آپ سے بھی کچھ لوگوں نے گزارِش کی کہ نواب صاحب کی تعریف میں کوئی قصیدہ لکھ دیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے نواب صاحب کی تعریف میں کوئی قصیدہ تو نہ لکھا البتہ اس گزارش کے جواب میں ایک نعت شریف لکھی جس کا مَطْلَع یعنی شروع کا شعر یوں ہے:
وہ کمال حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص، جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
اور مَقْطَع یعنی آخری شعر میں نواب صاحب کی تعریف میں کوئی قصیدہ نہ لکھنے اور اس کے جواب میں نعت رسول مقبول لکھنے کی بہت ہی نفیس اور عشق ومحبت میں ڈوبی ہوئی وجہ یوں بیان کی:
کروں مدح اہلِ دُوَل رضا پڑے اس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارہ ناں نہیں
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے کلام کے اس مَقطَع یعنی آخری شعر کا مطلب یہ ہے کہ اے رضاؔ میں اور دولتمندوں ،دنیا کے نوابوں اور حکمرانوں کی تعریف و خوشامد کروں ؟ نہیں نہیں اس بلا یعنی مالداروں کی خوشا مد نُما آفت و بلا میں تو بس’’ مِری بلا‘‘ ہی پڑے! (یعنی مجھ سے تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا) بس میں تو اپنے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دَربارِ دُربار کا بھکاری ہوں ،میرا دِین ’’ روٹی کا ٹکڑا ‘‘ نہیں کہ جدھر ’’مال ‘‘ دیکھا اُدھر لُڑَھک گئے۔(1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…ملفوظات اعلی حضرت ،ص۳۰ماخوذا۔