مالدار) کے لیے عاجزی اختیار کی اور اپنے آپ کو اس کی تعظیم ومال دولت کے لیے بچھا دیا تو ایسے شخص کی غیرت کے تین حصے اور اس کے دین کا ایک حصہ جاتا رہا۔‘‘(1)
تملق (چاپلوسی) کے بارے میں تنبیہ:
چاپلوسی اورخوشامد کرنا ایک مذموم ، مہلک اور غیر اخلاقی فعل ہے ، بسا اوقات چاپلوسی اور خوشامد ہلاکت میں ڈالنے والے دیگر کئی گناہوں جیسے جھوٹ، غیبت، چغلی، بدگمانی وغیرہ میں مبتلا کردیتی ہے جو حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔ البتہ علم دین حاصل کر نے کیلئے اگر خوشامد کی ضرورت پیش آئے تو طالب علم کو چاہیے کہ اپنے استاد اورطالب علم اسلامی بھائیوں کی خوشامد کرے تاکہ ان سے علمی طور پرمستفید ہواجاسکے ۔ایسی خوشامد اور چاپلوسی شرع میں ممنوع نہیں۔ چنانچہ اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’خوشامد کرنا مؤمن کے اخلاق میں سے نہیں ہے مگر علم حاصل کرنے کے لئے خوشامد کر سکتا ہے۔‘‘(2)
حکایت، میں مالداروں کی چاپلوسی کیوں کروں ؟
ایک مرتبہ رِیاست نانپارہ (ضِلع بہرائچ یو پی ہند) کے نواب کی مَدح میں شعراء نے قصائد لکھے ۔اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت، عظیم البَرَکت، مُجَدِّدِدِین ومِلَّت، پروانۂ شمعِ رِسالت حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن بھی ماہر اور عظیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…شعب الایمان، باب فی حسن الخلق، ج۶، ص۲۹۸، حدیث: ۸۲۳۲۔
2…شعب الایمان ،باب فی حفظ اللسان،ج۴،ص۲۲۴، حدیث: ۴۸۶۳۔