یہ سن کر بلعم بن باعوراء کانپ اٹھا اور کہنے لگا کہ ’’تمہارا برا ہو، خدا کی پناہ! حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں اور ان کے لشکر میں مومنوں اور فرشتوں کی جماعت ہے ان کے خلاف بھلا میں کیسے اور کس طرح بددعا کرسکتا ہوں ؟‘‘ لیکن اس کی قوم نے رو رو کر اور گڑگڑا کر اس طرح اصرار کیا کہ اس نے یہ کہہ دیا کہ استخارہ کرلینے کے بعد اگر مجھے اجازت مل گئی تو بددعا کردوں گا۔ مگر استخارہ کے بعد جب اس کو بددعا کی اجازت نہیں ملی تو اس نے صاف صاف جواب دے دیا کہ اگر میں بددعا کروں گاتو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی۔
اس کی قوم نے جب یہ دیکھا کہ کسی طرح بھی یہ راضی نہیں ہو رہا تو انہوں نے مال ودولت کا لالچ دینے کا سوچا، چنانچہ انہوں نے بہت سے قیمتی ہدایا اور تحائف ودیگر مال ودولت اس کی خدمت میں پیش کر کے سیِّدُنا موسی عَلَیْہِ السَّلَام کے خلاف بددعا کرنے پر بے پناہ اصرار کیا۔ یہاں تک کہ بلعم بن باعوراء پر حرص اور لالچ کا بھوت سوار ہو گیا، اور وہ مال کے جال میں پھنس گیا۔ وہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بددعا کے لئے چل پڑا، راستہ میں بار بار اس کی گدھی ٹھہر جاتی اور منہ موڑ کر بھاگ جانا چاہتی تھی مگر یہ اس کو مار مار کر آگے بڑھاتا رہا،یہاں تک کہ گدھی کو اللہ تعالٰی نے گویائی کی طاقت عطا فرمائی اور اس نے کہا کہ ’’افسوس، اے بلعم بن باعوراء !تو کہاں اور کدھر جا رہا ہے؟ دیکھ! میرے آگے فرشتے ہیں جو میرا راستہ روکتے اور میر امنہ موڑ کر مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ اے بلعم! تیرا برا ہو کیا تو اللہ کے نبی اور مومنین کی جماعت پر بددعا