حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’راہِ آخِرت پر گامزن بُزُرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ سالن نہیں کھاتے تھے بلکہ وہ خواہِشاتِ نَفس کی تکمیل سے بچتے تھے کیوں کہ انسان اگر حسبِ خواہِش لذیذ چیزیں کھاتا رہے تو اِس سے اُس کے نَفس میں اَکڑ (یعنی غرور)اور دِل میں سختی پیدا ہوتی ہے، نیز وہ دُنیا کی لذیذ چیزوں سے اس قدَر مانوس ہو جاتاہے کہ لذائذِ دُنیا کی محبت اس کے دِل میں گھر کر جاتی ہے اور وہ ربِّ کائنات جَلَّ جَلَالُہُکی ملاقات اور اُس کی بارگاہِ عالی میں حاضِری کو بھول جاتا ہے، اس کے حق میں دُنیا جنّت اور موت قید خانہ بن جاتی ہے۔ اور جب وہ اپنے نَفس پر سختی ڈالے اور اس کو لذَّتوں سے محروم رکھے تودُنیا اُس کیلئے قید خانہ بن جاتی اورتنگ ہو جاتی ہے تو اس کا نَفس اس قید خانے اور تنگی سے آزادی چاہتا ہے اورموت ہی اس کی آزادی ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ بن مُعاذ رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے فرمان میں اِسی بات کی طرف اِشارہ ہے، چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’اے صِدّیقین کے گروہ! جنّت کا وَلیمہ کھانے کیلئے اپنے آپ کوبُھوکا رکھو کیوں کہ نَفس کو جس قدَر بھوکا رکھا جائے اُسی قدَرکھانے کی خواہش بڑھتی ہے۔‘‘(1) (یعنی جب شدّت سے بھوک لگی ہوتی ہے اُس وقت کھانا کھانے میں زیادہ لُطف آتا ہے، اس کا تجرِبہ عُموماً ہر روزہ دار کو ہوتاہے، لہٰذا دُنیا میں خوب بھوکے رہو تا کہ جنّت کی اعلیٰ نعمتوں سے خوب لذّت یاب ہو سکو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…احیاء العلوم، کتاب کسر الشھوتین، بیان طریق الریاضۃ فی کسر شھوات البطن، ج۳،ص۱۱۴۔