اس نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ان کو (یعنی محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو) اونٹ پر سوار کرکے اپنے شہر سے نکال دو پھر وہ جوکچھ بھی کریں اس سے تمہیں کچھ ضَرر نہیں۔ ابلیس نے اس رائے کو بھی ناپسند کیا اور کہا جس شخص نے تمہارے ہوش اُڑا دیئے اور تمہارے دانشمندوں کو حیران بنادیا اس کو تم دوسروں کی طر ف بھیجتے ہو ، تم نے اس کی شیریں کلامی ، سیف زبانی ، دل کشی نہیں دیکھی ہے اگر تم نے ایسا کیا تو وہ دوسری قوم کے قلوب تسخیر کرکے ان لوگوں کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے ۔ اہلِ مجمع نے کہا شیخِ نجدی کی رائے ٹھیک ہے اس پر ابوجہل کھڑا ہوا اور اس نے یہ رائے دی کہ قریش کے ہر ہر خاندان سے ایک ایک عالی نسب جوان منتخب کیا جائے اور ان کو تیز تلوار یں دی جائیں ، وہ سب یکبارگی حضرت پر حملہ آور ہو کر قتل کردیں تو بنی ہاشم قریش کے تمام قبائل سے نہ لڑ سکیں گے ۔ غایت یہ ہے کہ خون کا معاوضہ دینا پڑے وہ دے دیا جائے گا ۔ ابلیسِ لعین نے اس تجویز کوپسند کیا اور ابوجہل کی بہت تعریف کی اور اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا ۔ حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے سیدِ عالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ گزارش کیا اور عرض کیا کہ حضور اپنی خواب گاہ میں شب کو نہ رہیں ، اللہ تعالٰی نے اِذن دیا ہے مدینہ طیبہ کا عزم فرمائیں۔ حضور نے علی مرتضیٰ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)کو شب میں اپنی خواب گاہ میں رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہماری چادر شریف اوڑھو تمہیں کوئی ناگواربات پیش نہ آئے گی اور حضور دولت سرائے اقدس سے باہر تشریف لائے اور ایک مشتِ خاک دستِ مبارک میں لی اور آیت:﴿ اِنَّا جَعَلْنَا