اس کی رعایا اور قوم میں سے کوئی شخص اس کے پیچھے نہ آئے۔
پھر اس نے جزیرے میں داخل ہوتے ہی شاہی لباس اورسر کاتاج اُتار کر اونی لباس اوربالوں سے بنی ہوئی ٹوپی پہن لی اور راکھ زمین پر بکھیر کر اس پر لوٹ پوٹ ہونے لگا اور روتے ہوئے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں سجدہ ریزہوگیااوراپنا چہرہ راکھ پرلت پت کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’اے میرے مالک ومولیٰ!میں جانتاہوں کہ توہی زمین وآسمان کامالک اور اوَّلین وآخرین کامعبود ہے۔لیکن مجھ پربدبختی غالب آگئی، میں تیری نافرمانی و سرکشی میں بہت آگے بڑھ گیا۔ تُو میرا معبودہے اور میں تیرا بندہ ہوں ، تو نے میرے متعلق جو فیصلہ فرمادیا، فرمادیا۔ مولیٰ! اب مجھے میری قوم میں ذلیل ورسوانہ کر اور تو ہی سب سے بڑھ کرکرم فرمانے والا ہے ۔‘‘
ابھی فرعون کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسی وقت دریائے نیل کو جاری ہونے کا حکم دے دیا اور اسے فرمایا کہ جہاں تک فرعون جائے وہ بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے۔ چنانچہ فرعون واپس اپنی قوم میں اس حالت میں جا رہا تھا کہ دریا کا پانی اس کے دامن کو تر کرتے ہوئے ساتھ ساتھ جارہاتھا اور لوگ اپنی آستینوں کوپانی اورکیچڑ میں ڈبو کر خوشی سے ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔ اس وقت سے اب تک مصر میں خوشی منانے کایہ طریقہ رائج ہے اوراہلِ مصر اِسے یومِ نوروزیعنی دریائے نیل کی طغیانی کادن کہتے ہیں۔(1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…حکایتیں اور نصیحتیں،ص۳۷۳۔