ہے،اس وَقْت تمہیں چاہئے کہ دِل میں آنے والے اُس گُمان کو جُھٹلا دو کیونکہ یہ (بدگمانی) سب سے بڑا فِسْق ہے۔‘‘مزید لکھتے ہیں :’’یہاں تک کہ اگر کسی شخص کے منہ سے شَراب کی بُو آرہی ہو تو اُس کوشَرْعی حد لگانا جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اُس نے شراب کا گُھونٹ بھرتے ہی کلّی کردی ہو یا کسی نے اُسے زبردستی شَراب پِلادی ہو، جب یہ سب احْتِمالات (یعنی شُبُہات) موجود ہیں تو (ثُبُوتِ شَرْعی کے بِغیر) مَحْض قَلْبی خَیالات کی بِنا پر تصدیق کردینا اور اس مسلمان کے بارے میں (شرابی ہونے کی) بدگُمانی کرنا جائز نہیں ہے ۔‘‘ (1)
حکایت، بدگمانی کرنے والے سوداگر کی توبہ:
حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن اَسعد یافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی (حضرتِ سیِّدُنا بِشر حافِی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْکَافِی کے دور کے) ایک صاحب علم وفضل کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ بغداد میں ایک سوداگر تھا جو اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کی شان میں بدکلامی کیا کرتاتھا ۔ کچھ عرصہ بعد میں نے اسی شخص کو اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کی صُحبت میں دیکھا اور کسی نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی ساری دولت انہیں پر لُٹا دِی ہے ۔ میں نے اس سوداگر سے اِس تبدیلی کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ میں غَلَطی پر تھااور اس کا اِحساس مجھے اِس طرح ہوا کہ ایک مرتبہ جمعہ کی نَماز کے بعد میں نے حضرتِ سیِّدُنا بِشر حافِی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْکَافِی کو دیکھا کہ بہت جلدی میں مسجد سے نکل رہے ہیں۔ میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…احیاء العلوم، کتاب آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، ج۳، ص۱۸۶۔