جس کے بارے میں دِل میں گُمان آئے) کو حقیر جاننا یا اس کی عیب گوئی کرنایا اس بدگُمانی کوبیان کردینا ۔‘‘(1)
مثلاً کسی نے دعوت کی اور دعوت میں نہ پہنچنے والے شخص نے ملاقات ہونے پر اپنا کوئی عُذْر پیش کیا مگر دعوت کرنے والےکے دِل میں شیطان نے وَسْوَسَہ ڈالا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اُس نے اِس گُمان کی پیروی کرتے ہوئے فوراً بول دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو تو ایسی بدگُمانی حرام ہے ۔(2)
بدگمانی کیوں حرام ہے؟
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں :’’بدگُمانی کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دِل کے بھیدوں کوصِرْف اللہ تعالٰی جانتا ہے، لہٰذا تمہارے لئے کسی کے بارے میں بُرا گُمان رکھنا اُس وَقْت تک جائز نہیں جب تک تم اُس کی بُرائی اِس طرح ظاہِر نہ دیکھو کہ اس میں تاویل (یعنی بچاؤ کی دلیل) کی گنجائش نہ رہے، پس اُس وَقْت تمہیں لامُحالہ (یعنی ناچار) اُسی چیز کا یقین رکھناپڑے گا جسے تم نے جانا اور دیکھا ہے اور اگر تم نے اُس کی برائی کو نہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اورنہ ہی کانوں سے سنا مگر پھر بھی تمہارے دِل میں اس کے بارے میں بُرا گُمان پیدا ہو تو سمجھ جاؤ کہ یہ بات تمہارے دِل میں شیطان نے ڈالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…روح المعانی ،پ ۲۶،الحجرٰت، تحت الآیۃ: ۱۲،ج۲۶، ص۴۲۹ ملخصاً۔
2…بدگمانی، ص۲۱ بتصرف قلیل۔