کر بیٹھو و تو اس پر جمے نہ رہو۔‘‘(1) یعنی اسے اپنے دِل میں جگہ نہ دو ،نہ کسی عمل کے ذریعے اس کا اِظہار کرو اور نہ اَعضاء کے ذریعے اس بدگُمانی کو پُختہ کرو۔(2)
مثلاًشیطان نے کسی شخص کے دِل میں کسی نیک شخص کے بارے میں رِیاکاری کا گُمان ڈالا تو اس اِسلامی بھائی نے اس گُمان کو فوراً جھٹک دیا اور اس مسلمان کے بارے میں مُخْلِص ہونے کا حسنِ ظن قائم کر لیا تو اب اس کی گَرِفْت نہیں ہوگی اور نہ ہی یہ گنہگار ہو گا ۔اِس کے برعکس اگر دِل میں بدگُمانی آنے کے بعد اُس کو نہ جُھٹلایا اور وہ بدگُمانی اس کے دِل میں قَرار پکڑ ے رہی حتی کہ یقین کے دَرَجے پر پہنچ گئی کہ فُلاں شخص ریا کار ہی ہے تو اب بدگُمانی کرنے والا گناہ گار ہوگا چاہے اس بارے میں زبان سے کچھ نہ بولے ۔
(2)…بدگُمانی کو زبان پر لے آنایا اس کے تقاضے پر عمل کر لینا: علامہ عبدالغنی نابلسی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی لکھتے ہیں : ’’شک یا وہم کی بناء پر مؤمنین سے بدگُمانی اِس صورت میں حرام ہے جب اس کا اثر اَعضاء پر ظاہِر ہو یعنی اس کے تقاضے پر عمل کر لیا جائے مثلاًاس بدگُمانی کو زبان سے بیان کردیا جائے ۔‘‘(3)
علامہ سیِّد محمود آلُوسی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی لکھتے ہیں : ’’جب بدگُمانی غیر اِختِیاری ہو تو جس چیز کی مُمَانَعَت ہے ،وہ اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرنا ہے یعنی مظنون (یعنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…معجم کبیر، باب من اسمہ الحارث، ج۳،ص۲۲۸، حدیث: ۳۲۲۷ملتقطا۔
2…احیاء العلوم ، کتاب آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، ج۳،ص۱۸۶۔
3…الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الرابع والعشرون من ۔۔۔الخ، ج۲، ص۱۳ملخصًا۔