کسی اِنسان پر اس کی طاقت سے زائدبوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کے خلاف ہے ،اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاؕ ﴾ (پ۳،البقرۃ:۲۸۶) ترجمۂ کنزالایمان : ’’اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر ۔‘‘
بدگُمانی کے حرام ہونے کی دو صُورتیں :
(1)…بدگمانی کو دِل پر جما لینا : شارح بخاری علامہ بدرُالدین عینی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْغَنِی فرماتے ہیں : ’’گُمان وہ حرام ہے جس پر گُمان کرنے والا مُصِرہو (یعنی اصرار کرے) اور اسے اپنے دِل پر جمالے نہ کہ وہ گُمان جو دِل میں آئے اور قرار نہ پکڑے ۔‘‘(1)
حجۃ الاِسلام اِمام محمدغزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’(مسلمان سے) بدگُمانی بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح زبان سے برائی کرنا حرام ہے ۔ لیکن بدگُمانی سے مُراد یہ ہے کہ دِل میں کسی کے بارے میں برا یقین کرلیا جائے،رہے دِل میں پیدا ہونے والے خدشات و وَسْوَسے تو وہ معاف ہیں بلکہ شک بھی معاف ہے ۔‘‘
مزید لکھتے ہیں :’’بدگُمانی کے پختہ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ مظنون کے بارے میں تمہاری قَلْبِی کَیْفِیَّت تبدیل ہوجائے ، تمہیں اُس سے نفرت محسوس ہونے لگے ،تم اُس کو بوجھ سمجھو،اس کی عزت واِکرام اور اس کے لئے فِکْرمند ہونے کے بارے میں سُستی کرنے لگو ۔نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:جب تم کوئی بدگُمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…عمدۃ القاری ،کتاب البر والصلۃ، باب ما ینھی۔۔۔الخ، ج۱۵، ص۲۱۸، تحت الحدیث: ۶۰۶۵۔