گناہ ہے ، دوسرا یہ کہ دل میں آئے اور زبان سے نہ کہا جائے ، یہ اگرچہ گناہ نہیں مگر اس سے بھی دل خالی کرنا ضرور ہے ۔ مسئلہ : گمان کی کئی قسمیں ہیں ، ایک واجب ہے وہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ایک مستحب وہ مومنِ صالح کے ساتھ نیک گمان ایک ممنوع حرام وہ اللہ کے ساتھ بُرا گمان کرنا اور مومن کے ساتھ بُرا گمان کرنا ایک جائز وہ فاسقِ مُعْلِنْ کے ساتھ ایسا گمان کرنا جیسے افعال اس سے ظہور میں آتے ہوں۔‘‘
حدیث مبارکہ، مومن کی بدگمانی اللہ سے بدگمانی:
اُمُّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُنَا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے بدگمانی کی، کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے:﴿اجْتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ۫ ﴾ (پ۲۶، الحجرات: ۱۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بہت گمانوں سے بچو۔‘‘(1)
بدگمانی کا حکم:
تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ ۶۴ صفحات پر مشتمل رسالے ’’بدگمانی‘‘ صفحہ۲۱پر ہے: ’’کسی شخص کے دِل میں کسی کے بارے میں بُرا گُمان آتے ہی اسے گنہگار قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ محض دِل میں بُرا خیال آجانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرانے کا مطلب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1… کنز العمال، کتاب الاخلاق، ظن السوء، الجزء: ۳، ج۲، ص۱۹۹، حدیث: ۷۵۸۲۔