سے اِعتقادِ جازِم (یعنی یقین) کرنا۔‘‘(1)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ۫ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُکُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَاتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲﴾ ﴾ (پ۲۶، الحجرات: ۱۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’مومنِ صالح کے ساتھ بُرا گمان ممنوع ہے ، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنٰی مراد لینا باوجود یہ کہ اس کے دوسرے صحیح معنٰی موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو ، یہ بھی گمانِ بد میں داخل ہے ۔ سفیان ثوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا گمان دو طرح کا ہے ، ایک وہ کہ دل میں آئے اور زبان سے بھی کہہ دیا جائے ، یہ اگر مسلمان پر بدی کے ساتھ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…شیطان کے بعض ہتھیار، ص۳۲۔