نِت نئے اور عمدہ کپڑے پہننے کی حِرْص ہے اور نیت کچھ بھی نہیں (نہ تکبر کی اور نہ ہی اِظہارِ نعمت کی) تو اُسے اِس کا نہ گناہ ملے گا اور نہ ہی ثواب، جبکہ اس حِرْص کو پورا کرنے میں شریعت کی خلاف ورزی نہ کرے ، چنانچہ اگر اس قسم کی حِرْص کو پورا کرنے کے لئے رِشوت ، چوری، ڈاکہ جیسے حرام کمائی کے ذَرائع اِختیار کرنے پڑتے ہیں تو ایسی حِرْص سے بچنا لازِم ہے۔
حرص مباح کب حرص محمود بنے گی اور کب مذموم؟
اگر کوئی مُباح کام اچھی نیَّت سے کیا جائے تو اچّھا ہو جائے گا ،لہٰذا اِس کی حِرْص بھی محمود ہوگی اور اگروہی کام بُری نیّت سے کیا جائے تو بُرا ہو جائے گا اور اس کی حِرْص بھی مذموم ہوگی اور کچھ بھی نیّت نہ ہو تو وہ کام اور اس کی حِرْص مُباح رہے گی ۔ میرے آقااعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت، مجدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فتاویٰ رضویہ ،ج۷، ص۱۸۹ پر نقل فرماتے ہیں : ’’ہرمُباح (یعنی ایسا جائز عمل جس کا کرنا نہ کرنا یکساں ہو) نیّتِ حَسَن(یعنی اچّھی نیّت) سےمُستَحَب ہو جاتا ہے۔‘‘(1) فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : مُباحات (یعنی ایسے جائز کام جن پر نہ ثواب ہو نہ گناہ ان) کاحُکم الگ الگ نیّتوں کے اِعتِبار سے مختلف ہوجاتاہے ، اس لئے جب اس سے (یعنی کسی مباح سے) طاعات (یعنی عبادات) پر قوت حاصِل کرنا یا طاعات (یعنی عبادات ) تک پہنچنا مقصود ہو تو یہ (مُباحات یعنی جائز چیزیں بھی ) عبادات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…فتاویٰ رضویہ، ج ۸، ص ۴۵۲۔