النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ ۚۛ وَمِنَ الَّذِیۡنَ اَشْرَکُوۡا ۚۛ یَوَدُّ اَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍ ۚ وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنۡ یُّعَمَّرَ ؕ وَاللہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوۡنَ﴿۹۶﴾٪ ﴾(پ۱، البقرۃ: ۹۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور بے شک تم ضرور انہیں پاؤ گے کہ سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس رکھتے ہیں اور مشرکوں سے ایک کو تمنا ہے کہ کہیں ہزار برس جیئے اور وہ اسے عذاب سے دور نہ کرے گا اتنی عمر دیا جانا اور اللہ ان کے کوتک (اعمال) دیکھ رہا ہے۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’مشرکین کا ایک گروہ مجوسی ہے آپس میں تحیت و سلام کے موقع پر کہتے ہیں زہ ہزار سال یعنی ہزار برس جیو مطلب یہ ہے کہ مجوسی مشرک ہزار برس جینے کی تمنا رکھتے ہیں یہودی ان سے بھی بڑھ گئے کہ انہیں حرص وزندگانی سب سے زیادہ ہے۔‘‘
حدیث مبارکہ، ابن آدم کی حرص:
حضرت سیِّدُنا انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے: ’’اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دووادیاں بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا اورابن آدم کاپیٹ قبر کی مِٹی ہی بھر سکتی ہے۔‘‘(1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…مسلم، کتاب الزکاۃ، باب لو ان لابن آدم ۔۔۔ الخ، ص۵۲۱، حدیث: ۱۱۶۔