چونکہ ایسے ہی بے تکی ہانکتے ہیں اس وجہ سے ان کی مَذمَّت کی جاتی ہے۔(1) جو اَشعار مُباح ہوں ان کے پڑھنے میں حَرَج نہیں۔اَشعار کے پڑھنے سے اگر یہ مَقْصُود ہو کہ ان کے ذریعہ سے تفسیر و حدیث میں مَدَد ملے یعنی عَرَب کے مُحاوَرات اور اُسْلُوبِ کلام سے آگاہ ہو، جیسا کہ شُعَرَائے جَاھِلِیَّت کے کلام سے اِسْتِدَْلال کیا جاتا ہے، اس میں بھی کوئی حَرَج نہیں۔(2)
اَلْغَرَضْ اَشعار پر مُشْتَمِل کلام تین۳ طرح کا ہوتا ہے:
مُسْتَحَب کلام:اس سے مُراد وہ کلام ہے جو دنیا سے بچائے اور آخِرَت کی رَغْبَت دِلائے یا اَچھّے اَخلاق پر اُبھارے، وہ مُسْتَحَب ہوتا ہے۔
مُباح کلام :اس سے مُراد وہ کلام ہے جس میں فُحْش اور جھوٹ نہ ہو۔
مَـمْنُوع کلام: اس کی دو۲ اَقسام ہیں: جھوٹ اور فُحْش اور ان دونوں کے کہنے والوں کو عیب لگایا جائے گا اور اگر کوئی حَالَتِ اِضْطِرَار میں پڑھ رہا ہو تو مَعْیُوب (عیب دار)نہیں لیکن اِخْتِیار سے پڑھنے والا مَعْیُوب (بُرا، باعِثِ نَدامَت)ہے۔
البتّہ!جو کلام اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اِطَاعَت،سنّت کی پَیروی، بِدْعَت سے اِجْتِنَاب اور
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
……… بہار شریعت، ۳/۵۱۴
2 ……… فتاوی ھندیه ، کتاب الکراھیة، الباب السابع عشر فی الغناء،۵/ ۴۳۱