Brailvi Books

بارگاہِ رسالت میں صحابیات کے نذرانے
7 - 44
 ہے۔ ایک کو نَثْر کہتے ہیں جبکہ دُوسْرا اَشعار کی شَکْل میں ہوتا ہے اور اسے نَظْم کہتے ہیں۔ اَشعار اَچھّے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی، مگر یاد رکھئے! کوئی شے بسا اوقات اپنی ذات کی وجہ سے اَچھّی یا بُری نہیں ہوتی بلکہ ثَواب و عِتاب کا  حکْم اس چیز پر مَوقُوف ہوتا ہے جو اس سے اَدا کی جائے۔مثلاً حُروفِ تہجی کو دیکھ لیں کہ انہیں کسی خاص معنیٰ کے لیے وَضْع نہیں کیا گیا بلکہ یہ تو مُـخْتَلِف مَعانی کو اَدا کرنے کا آلہ ہیں، جیسے معنیٰ چاہیں ان سے اَدا کر سکتے ہیں خواہ اَچھّے ہوں یا بُرے یہاں تک کہ اِیمان سے کُفْر تک کا معنیٰ بھی اِنہی حُروف سے اَدا ہوتا ہے،لہٰذا مطلقاً حُروف کو حَسَن یا قبیح (اَچّھے یا بُرے) ہونے کے ساتھ مَوصُوف نہیں کر سکتے بلکہ یہ مَدح وذَم (تعریف و مَذمَّت)اورثواب و عِقاب میں اس چیز کے تابع ہوتے ہیں جو ان سے اَدا کی جائے،جیسے تلوار بَہُت اَچھّی ہے اگر ا س سے حِمایَتِ اِسلام کی جائے اور سَخْت بُری ہے اگر خونِ ناحَق میں بَرتی جائے۔جیسا کہ حدیثِ پاک  میں ہے:اَلشِّعْرُ بِـمَنْزِلَةِ الْـکَلَامِ،حَسَنُهُ کَحَسَنِ الکَلَامِ وَقَبِیْحُهُ کَقَبِیْحِ الکَلَامِ۔(1) یعنی شِعْر بَمَنْزِلَۂ کلام کے ہے تو اس کا اَچھّا مِثل اَچھّے کلام کے اور اس کا بُرا مِثل بُرے کلام  کے۔ لہٰذا اَشعار پر فِی  نَـفْسِھَا اَچھّے یا بُرے ہونے کا کوئی حکْم نہیں ہو سکتا بلکہ یہ اَدا کیے گئے مَفہوم کے تابع ہوں گے۔کیونکہ بعض شِعْر حِکْمَت بھرے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
 ……… ادب المفرد، باب الشعر حسن کحسن الکلام ومنه قبیح، ص۲۵۶، حدیث:۸۶۵