پیاری پیاری اسلامی بہنو!جب ایسی شانوں والے نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اَنصار کے ہاں قَدَم رَنْجَہ فرمایا تو ان کے ہاں خوشیوں کا سَماں کیوں نہ ہوتا اور ان کی بچیاں شوق و وَجْد میں کیوں نہ مَحبَّت و عِشْق سے بھرپور ترانے گاتیں؟کیونکہ وہ نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو ایسے تھے جن کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے:
خلیل اللہ نے جس کے لیے حَق سے دُعائیں کیں
ذَبِیحُ اللہ نے وَقْتِ ذَبْح جس کی اِلتجائیں کیں
جو بَن کر روشنی پھر دِیدۂ یعقوب میں آیا
جسے یُوسُف نے اپنے حُسْن کے نَیرنگ میں پایا
وہ جس کے نام سے داود نے نغمہ سَرائی کی
وہ جس کی یاد میں شاہ سلیمان نے گدائی کی
دلِ یحییٰ میں اَرمان رہ گئے جس کی زِیَارَت کے
لبِ عیسیٰ پہ آئے وَعْظ جس کی شانِ رَحْمَت کے
اَشعار کا حکم
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!دیکھا آپ نے! سرورِ کائنات، فَخْرِ مَوجُودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان میں اہلِ مدینہ کی بچیوں نے اپنے جذبات کا اِظْہَار اَشعار میں کیسے کیا؟یاد رکھئے! دِلی جذبات کی عکّاسی کرنے والا کلام دو۲ طرح کا ہوتا
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
……… شاہنامہ اسلام مکمل، ص ۸۸