مُشْتَمِل کتاب آئینۂ قِیامَت صَفْحَہ 27پر ہے:حُضُور سرور ِعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کافِروں کی اِیذا دَہی اور تکلیف رَسانی کی وجہ سے مکّہ مُعَظَّمہ سے ہجرت فرمائی۔ مدینہ والوں نے جب یہ خَبَر سنی،دِلوں میں مَسَرَّت آمیز اُمنگوں نے جوش مارا اور آنکھوں میں شادیٔ عِید کا نقشہ کھنچ گیا، آمَد آمَد کا اِنتِظار لوگوں کو آبادی سے نِکال کر پہاڑوں پر لے جاتا، مُنْتَظِر آنکھیں مکہ کی راہ کو جَہاں تک ان کی نَظَر پہنچتی،ٹکٹکی باندھ کرتکتیں اور مُشْتَاق دِل ہر آنے والے کو دُور سے دیکھ کر چونک پڑتے،جب آفتاب گرم ہو جاتا گھروں پر واپَس آتے۔ اسی کَیْفِیَّت میں کئی دِن گزَر گئے،ایک دن اَور روز کی طرح وَقْت بے وَقْت ہو گیا تھا اور اِنتِظار کرنے والے حسرتوں کو سمجھاتے،تمنّاؤں کو تسکین دیتے پَلَٹ چکے تھے کہ ایک یہودی نے بُلَندی سے آواز دی:اے راہ دیکھنے والو!پلٹو!تمہارا مَقْصُود بَر آیا اور تمہارا مَطْلَب پورا ہوا۔اس صَدا کے سنتے ہی وہ آنکھیں جن پر ابھی حَسْرَت آمیز حیرت چھا گئی تھی اَشکِ شادی بَرْسَا چلیں، وہ دِل جو مَایُوسی سے مُرجھا گئے تھے تَازْگی کے ساتھ جوش مارنے لگے،بے قَرارانہ پیشوائی کوبڑھے، پروانہ وار قُربان ہوتے آبادی تک لائے،اب کیا تھا خوشی کی گھڑی آئی ،منہ مانگی مُراد پائی، گھر گھر سے نغماتِ شادی کی آوازیں بُلَند ہوئیں،لڑکیاں دَف بجاتی، خوشی کے لَہْجُوں میں مُبارَک باد کے گیت گاتی نکل آئیں :