حسین صاحِب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : قرآنِ کریم جو کہ ایک مُکَمَّل ضابِطہ حَیات ہے جس میں صِراطِ مستقیم کی ہِدَایَت کیلئے جا بجا امر و نہی کی شَمْع روشن کر دی گئی ہے اور لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ ۲۱ ، الاحزاب : ۲۱) (ترجمہ کنزلایمان : بے شک تمہیں رسول الله کی پیروی بہترہے۔)فرما کر ایک بہترین نمونۂ عَمَل کی نشاندہی کر کے ان کی پیروی کو جُزْوِ حَیات قرار دیا گیا ہے ، یعنی قرآنِ کریم ایک کِتاب ہے اور حضور سراپا نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قول و فعل گویا اس کِتاب کی عَمَلی تفسیر ہے ، جس پر عَمَل کر کے انسان خاک سے بُلَند ہو کر مَلَـکُوتی (فرشتوں جیسی)صِفَات کا حامِل بن جاتا ہے ، رسولاللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے یہ اَقْوَال و اَفْعَال جنہیں سنّت کہتے ہیں ، اَحادِیثِ کریمہ ، اَقْوَالِ مَشائخ اور عُلَمائے کِرام کی کِتابوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ہزاروں ہزار فَضْل و کَرَم کی برسات ہو اَمِیْـرِ اَھْلِسُنّت ، بانی و اَمِیرِ دَعْوَتِ اِسْلَامی عاشِقِ مدینہ حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد اِلیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ پر کہ انہوں نے ان لعل و جَوَاہَر اور گوہَر پاروں کو چُن چُن کر یکجا فرما دیا اور فیضانِ سنّت کے حسین نام سے مَوسوم کر کے یادِ نبی میں دھڑکنے والے دلوں کی خِدْمَت میں پیش فرمایا ، زبان و بیان کی روانی اور طرزِ تحریر کی شیرینی کے ساتھ جب یہ کِتاب سامنے آئی تو لوگ اسے برستی آنکھوں اور ترستے دِلوں کے ساتھ پڑھنے اور اس پر عَمَل کرنے لگے۔
بندۂ ناچیز خود بھی اس کِتاب سے اتنا مُتَاَثِّر ہوا کہ جب اس کا پہلا ایڈیشن مجھے مِلا تو باوُضُو بھیگی آنکھوں سے رِحْل پر رکھ کر پڑھتا رہا اور بار بار پڑھتا رہا اور اب تو یہ جدید ایڈیشن