عَظِیْمٌ(۱۳) (پ۲۱ ، لقمان : ۱۳) سے اِسْتِدْلَال فرمایا۔(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب میدانِ فَصَاحَت و بلاغت کے شہسواروں کو قرآن کے مَعَانی سمجھنے کے لئے اَلفاظ ِقرآنی کی تفسیر کی حاجَت ہوئی) تو ہم تو اُس چیز کے زیادہ مُحتَاج ہیں ، جس کی انہیں ضَرورت پڑی بلکہ ہم تو سب لوگوں سے زیادہ اس چیز کے مُحتَاج ہیں کیونکہ ہمیں بغیر سیکھے لغت کے معانی و مَفَاہیم اور اسکے مَرَاتِب مَعْلُوم نہیں ہو سکتے۔(1) چُنَانْچِہ جو لوگ قرآنِ کریم پڑھتے ہیں مگر اس کی تفسیر نہیں جانتے ان کی مثال اُن لوگوں کی طرح ہے جن کے پاس رات کے وَقْت بادشاہ کا خط آیا لیکن ان کے پاس چراغ نہ تھا کہ جس کی روشنی میں وہ اس خط کو پڑھ سکتے ، لِہٰذا وہ پریشان ہو گئے کہ مَعْلُوم نہیں اس میں کیا لکھا ہے؟ جبکہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور ا س کی تفسیر جانتا ہے اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو چراغ لے آئے تا کہ وہ اس کی روشنی میں پڑھ سکے کہ خط میں کیا لکھا ہے۔(2)چُنَانْچِہ ،
میٹھے میٹھے اِسْلَامی بھائیو!ہمیں تلاوت ِ قرآن کے ساتھ ساتھ مُسْتَـنَد تفاسیر کے ذریعے مَعَانِیِ قرآن بھی سمجھنے کی کوشِش کرنی چاہیے اور بعدِ فَجْر مَدَنی حلقہ اس کا بَہُت ہی آسان ذریعہ ہے۔ کیونکہ اس میں روزانہ تین آیات کی تلاوت ، ترجمہ و تفسیر سننے سے شرکائے مَدَنِی حَلَقَہ کے دل میں جہاں اللہ پاک اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَحبَّت پیدا ہوتی ہے وہیں انہیں قرآن فہمی کی نِعْمَت بھی مُیَسَّر آتی ہے کہ جس کی
________________________________
1 - الاتقان ، النوع السابع والسبعون ، فصل وامّا وجہ الحاجة …الخ ، ص ۵۷۰ ، ملخصًا
2 - تفسیر قرطبی ، باب ما جاء فی فضل تفسیر القرآن واهله ، الجزء الاول ، ۱ / ۳۵