پہلی اور دوسری حدیثِ پاک کے ظاہِری معنی کی وجہ سے بَدفالی کو گناہِ کبیرہ شمار کیا جاتا ہے اور مناسب بھی یہی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے بارے میں ہو جو بَدفالی کی تاثیر کا اِعتقاد رکھتا ہو جبکہ ایسے لوگوں کے اسلام(یعنی مسلمان ہونے نہ ہونے)میں کلام ہے۔ (الزواجر عن اقتراف الکبار ،باب السفر،۱/۳۲۶)
؎کریں نہ تنگ خیالاتِ بَد کبھی ، کردے
شُعُور و فکر کو پاکیزگی عطا یاربّ (وسائل بخشش ،ص ۹۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
نازُک ترین معاملہ
رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشادفرمایا :اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ ثَلَاثًا وَمَا مِنَّا اِلَّا وَلٰکِنَّ اللہَ یُذْہِبُہُ بِالتَّوَکُّلِیعنی بَد فالی لینا شِرْک ہے، بَدفالی لینا شِرْک ہے،یہ تین مرتبہ فرمایا،(پھر اِرشادفرمایا:)ہم میں سے ہر شخص کو ایسا خیال آجاتا ہے مگراللہ عَزَّوَجَلَّ توکّل کے ذریعے اسے دُورفرما دیتا ہے۔( ابو داوٗد،کتاب الکھانۃ والطیر،باب فی الطیرۃ، ۴/ ۲۳،الحدیث:۳۹۱۰)
حضرتِ سیِّدُنا علامہ مُلاعلی قاری علیہ رحمۃُ اللہِ الباری اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :بَدشگونی لینے کو شِرْک قرار دیا گیاہے کیونکہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کااِعتقاد تھا کہ بَدشگونی کے تقاضے پرعمل کرنے سے ان کونفع حاصل ہوتا ہے یا ان سے