Brailvi Books

بدشگونی
13 - 127
اور مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان لکھتے ہیں :اسلام میں  نیک فال لینا جائز ہے ،بدفالی بدشگونی لینا حرام ہے ۔(تفسیر نعیمی، ۹/۱۱۹)
اہم ترین وضاحت
	نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات انسان کے دل میں  بُرے شگون کا خیال آہی جاتا ہے اس لئے کسی شخص کے دِل میں  بَدشگونی کا خیال آتے ہی اسے گنہگار قرار نہیں  دیا جائے گا کیونکہ محض دِل میں  بُرا خیال آجانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرانے کا مطلب کسی اِنسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کے خلاف ہے ،اللہ عَزَّوَجَلَّ اِرشادفرماتا ہے : 
لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاؕ (پ۳،البقرۃ:۲۸۶)
 ترجمۂ کنزالایمان :اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں  ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر ۔
	حضرت علامہ مُلَّا جِیْون رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہاس آیت کے تحت تفسیراتِ احمدیہ میں  لکھتے ہیں :یعنی اللہ تعالیٰ ہر جاندار کو اس بات کا مُکَلَّف(یعنی ذمہ دار) بناتا ہے جو اس کی وُسعت وقدرت میں  ہو۔(التفسیرات الاحمدیہ ،ص۱۸۹)
	چنانچہ اگر کسی نے بَدشگونی کا خیال دل میں  آتے ہی اسے جھٹک دیا تو اس پر کچھ اِلزام نہیں  لیکن اگر اس نے بَدشگونی کی تاثیر کا اِعتقاد رکھا اور اِسی اعتقاد کی بنا پر اس کام سے رُک گیا تو گناہ گار ہوگا مثلاً کسی چیز کو منحوس سمجھ کر سفر یا کاروبار کرنے سے یہ سوچ کر رُک گیا کہ اب مجھے نقصان ہی ہوگاتو اب گنہگار ہوگا۔شیخ الاسلام شہاب الدّین امام احمد بن حجر مکی ہیتمی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی کتاب اَلزَّوَاجِرُ عَنِ اقْتِرَافِ الْکَبَائِر میں  بَدشگونی کے بارے میں  دو حدیثیں  نَقْل کرنے کے بعد لکھتے ہیں  :