زلفیں رکھ لیں (جو تادمِ تحریر اپنی برکتیں لٹا رہی ہیں )، سر عمامہ شریف سے سبز ہو گیا، انگریزی لباس کی جگہ سنَّتوں بھرا سفید مدَنی لباس زیبِ تن کر لیا،فُضُولیات اور بدنگاہی کی جگہ علمِ دین کی کتابیں میرے قلب و ذہن کو منوّر کرنے لگیں۔ مجھے نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ گناہوں بھرے کاموں سے چھٹکارا بھی نصیب ہو گیا اور یوں میں نیک کاموں کی جستجو میں مگن ہو گیا۔ جب علم کے نور سے میرا باطن منوّر ہوا تو جہاں مجھے اپنے تمام گناہوں پر نَدامت و شرمندگی کا احساس ہوا وہیں مجھے والدین کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا بھی مَلال ہوا، اپنے کیے کی معافی مانگی اور ان کی اطاعت کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ ساتھ ہی ان کی دست بوسی کو اپنی عادت میں شامل کر لیا۔ میرے اخلاق و کردار میں رونما ہونے والی نمایاں تبدیلیوں کو دیکھ کر سبھی گھر والے بالخصوص میرے والدین بے حد خوش ہوئے اور معاشرے کی بگڑتی حالت کو سنوارنے والی مدَنی تحریک دعوتِ اسلامی کو دعائیں دینے لگے۔ تادمِ تحریر اَ لْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھ سمیت گھر کا ہر چھوٹا بڑا فرد ولیٔ کامل، شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے فیضان سے مُستَفِیض ہو رہا ہے اور سب کے سب عطّاری بن گئے ہیں۔ اَ لْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ جَامِعَۃُ الْمَدِیْنَہ سے فراغت کے بعد تین سال سے منصبِ تَدرِیس پر علمِ دین کے گوہر لٹا رہا ہوں ، جو سیکھا ہے وہ سکھارہا ہوں اور ایک مسجد میں اِمامت و خطابت کے فرائض سَر اَنجام