الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیکَ یَا رَسُولَ اللہ جیسے جائز اور نیک کاموں کو نہ صرف غلط کہنے لگا بلکہ انہیں شرک و بدعت سے تعبیر کرنے لگا۔ میرے اندر پیدا ہونے والی ان باتوں کے پیشِ نظر والد صاحب بہت پریشان رہتے، مجھے بہت سمجھاتے مگر میں ان کی ایک نہ مانتا بلکہ اُلٹا بحث کرنے لگتا۔ وہ بیچارے خاموش ہو جاتے۔ بہرحال جب والد صاحب واپس گاؤں آئے تو مجھے بھی ان کے ساتھ آنا پڑا۔ سبھی گھر والے تو اَ لْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ سنّی صَحِیحُ الْعَقِیدَہ ہیں ، جب مجھے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِیْن کے عقائد سے بیزار اور دورِ حاضر میں ایجاد ہونے والے گمراہ کُن نظریات میں گرفتار دیکھا توفکر مند ہو گئے اور میری اصلاح کی تدبیر کرنے لگے۔ چنانچہ انہوں نے گاؤں کے امام صاحب (جو کہ دعوتِ اسلامی سے بے انتہا محبت کرتے تھے) سے رابطہ کیا اور میری صورتحال سے آگاہ کرکے اُن سے اِس کاحل دریافت کیا۔ امام صاحب نے مجھے دعوتِ اسلامی کے شعبے جَامِعَۃُ الْمَدِیْنَہ میں داخل کروانے کا مشورہ دیا اور فرمایا: ’’دعوتِ اسلامی کے جامعہ میں نہ صرف اِس کے عقائدو اعمال درست ہوں گے بلکہ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی اَخلاقی تربیّت کا سامان بھی ہو جائے گا۔ ‘‘گھر والوں کو امام صاحب کی بات بہت پسند آئی چنانچہ انہوں نے مجھے جَامِعَۃُ الْمَدِیْنَہ میں داخل کروانے کی تگ و دَو شروع کردی۔ مجھے علم ہوا تو میں نے کافی مُزاحمت کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا بلکہ گھر