علم باعثِ شرف ہے
نبی ٔ اکرم، شَہَنشاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی آمد سے قبل نہ صرف عرب بلکہ ساری دنیا میں جہالت کا دَور دَورہ تھا۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی بعثتِ مبارکہ سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف قومیں اگرچہ اپنی جرأت و شجاعت، تہذیب و ثقافت، جُود و سخاوت اور دیگر امورِ معاشرت میں اپنی مثال نہیں رکھتی تھیں مگر صرف علم کا فُقدان اُن کی ہر خوبی کو دَاغدار کیے ہوئے تھا کیونکہ ان کی تمام تر خوبیوں کا مدار اپنی عزّت و وَجاہت کو بڑھانے، لوگوں پراپنی دَھاک بٹھانے اور دوسروں کو نیچا دکھانے پر ہوا کرتا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر خون کی ندیاں بہانا، عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا، بزورِ طاقت لوگوں کے اَموال پر ناحق قبضہ کرلینا ان کے شب و روز کے عام معمولات کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ ان کے نزدیک خواہشات کی تکمیل ہی کا دوسرا نام زندگی تھا پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے مُکَرَّم و مُعَظَّم نبی، سَیِّدُ المرسلین، خاتَمُ النَّبِیِّیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو بنی آدم کی کشتی پار لگانے اور انہیں مقصدِ حیات سے آشنا کرنے کے لیے اس بزمِ انسانیت میں رونق افروز فرمایا اور اس کا آغاز بھی حصولِ تعلیم کے حکم سے شروع فرمایا چنانچہ انسان کی فلاح و بہبود کے لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر تقریباً 23 سال جو وحی نازل ہوئی ہے اس کی ابتدا ’’اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ‘‘ ’’ترجمۂ کنزالایمان: پڑھو اپنے رب کے نام سے