ایک بابا کے پاس لے گئے اُسے بتایا کہ اس پرکسی نے جادو وغیرہ کر دیا ہے یہ بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔ میں نے چلا کر کہا کہ میں پاگل نہیں ہوں بلکہ ابھی تو صحیح معنوں میں عقل و خِرَد کی دہلیز پر قدم رکھا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین، دینِ اسلام قبول کر لیاہے۔ میری زبان سے ان کلمات کا نکلنا تھا کہ گھر والوں نے مجھے پکڑا اور واپس لے آئے۔ گھر پہنچتے ہی سب مجھ پر پِل پڑے ، میری خوب پٹائی کی گئی مگر میں اسلام کا سچا شیدائی بن چکا تھا اس لئے ان کی مار دھاڑ مجھے میرے ارادے سے نہ پچھاڑ سکی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ دینِ اسلام چھوڑنے کے لئے کسی طو رپر بھی آمادہ نہیں تو انھوں نے مجھے جان سے مار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے جب اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب تو گھر والے مجھے جان سے مار ڈالیں گے تو میں گھر سے بھاگ کر میرپور خاص جا پہنچا۔ یہاں میں نے نماز ادا کی۔ میرا ارادہ یہاں سے حیدرآباد جانے کا تھا مگر جیب خالی ہونے کے باعث مجھے سخت پریشانی کا سامنا تھا۔ اتنی رقم بھی پاس نہ تھی کہ پیٹ میں لگی بھوک کی آگ ہی بجھا سکوں ، فاقہ مستی نے جب طول پکڑا تو شدتِ بھوک سے بے قرار ہو کر بادلِ نخواستہ ایک دکاندار کو لڑکھڑاتی زبان سے اپنی داستانِ غم بیان کی، مگرشاید وہ بھی پیشہ وارانہ گداگروں سے تنگ آیا ہوا تھا، مجھے بھی پیشہ ور گداگر سمجھ کرخوب کڑوی کسیلی باتیں سنا ئیں اور انتہائی حقارت سے دھتکار دیا۔ ناچار سرجھکا ئے